معاف کرنے کی عادت ڈیپریشن ،ذہنی دباؤ اور پریشانی سے نجات کا ذریعہ
ماہرنفسیات کے مطابق معاف کرنا انسان کی ایک شعوری کوشش ہے اور ایسے فرد سے ناراضگی یا شکوہ ختم کرنے کا نام ہے جس نے اپنے رویے اور عمل سے کسی انسان کو بہت تکلیف اور دکھ دیا ہو ۔
اگرچہ کسی کو تکلیف دینے یا نقصان پہنچانے والے کا رویہ قابلِ قبول نہیں ہوتا مگر پھربھی غصہ اور نفرت ختم کر کے اس انسان کو کھلے دل سے معاف کرنا آسان کام نہیں ہے۔جب ہم کسی کے رویے سے تکلیف میں مبتلا ہو تے ہیں تو ہمارے اندر بڑی مقدار میں غصے اور نفرت کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں جو کہ ذہنی دباؤ ،پریشانی اور ڈیپریشن کا باعث بنتے ہیں ۔لیکن اگر ان کو کنٹرول کیا جائے تو انسان بہت سے نقصانات سے بچ سکتاہے۔
معاف کرنے کے بہت سے فوائد ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
جب ہم دُکھ دینے والے فرد کو معاف کرتے ہیں تو اصل میں اپنے آپ کو منفی جذبات ،ذہنی دباؤ ،پر یشانی اور ڈ یپریشن سے آزاد کروا تے ہیں جو اگر ختم نہ ہوں تو انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت پر منفی اثرات چھوڑتے ہیں ۔
معاف کر دینے سے انسان ماضی کی تکلیف دہ یادوں سے باہر نکل آتا ہے اور زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ آجاتا ہے۔
معاف کر دینے سے انسان کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ کتنی تکلیف کو برداشت کر سکتا ہے اور اس میں تکلیف سے مقابلہ کرنے کی کتنی صلاحیت ہے!
معاف کرنے کی عادت سے رشتے خوب صورت اور مضبوط ہوتے ہیں اور انسان کو سکون ملتا ہے ۔
انسان کو پر سکون نیند آتی ہے جوکہ بہت سی ذہنی اور جسمانی بیماریوں سے بچاتی ہے۔
دینِ اسلام میں معاف کرنے والے کو بہت پسند کیا گیا ہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ بہترین انسانوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:ـ ’’جو لوگ آسانی میں ،تنگی میں اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ،غصہ پینے والے ہیں اور لوگوں کو معاف (درگزر) کرنے والے ہیں اور اللہ نیکی کرنے والوں کو پسندکرتاہے۔ (سورہ آل عمران )
اور حضرت ابو ہر یرہ سے روایت ہے کہ آ نحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور بندے کو معاف کرنے سے اللہ عزت بڑھا دیتا ہے اور اس کے درجات بلند کر دیتا ہے ۔‘‘(صحیح المسلم)
جبکہ حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ’’ طاقت کے ہوتے ہوئے معاف کرنا بہترین نیکی ہے ۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ انسان ان لوگوں کو کیسے معاف کرے جنہوں نے کسی وجہ سے تکلیف یا دکھ دیا ہو۔ خاص طورپر ان افراد کو جنہوں نے کبھی تسلیم نہیں کیا کہ ان کے رویے سے دوسرے افرادتکلیف اور اذیت ملی ہے اور انہوں نے اس پر کبھی معافی بھی نہیں مانگی ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ سب سے پہلے خود کو سوچیں اور اپنا تجزیہ کریں کہ جن لوگوں نے آپ کو تکلیف دی ہے تو اس تکلیف دہ واقعہ یا احساسات سے ان کی زندگی زیادہ متاثر ہوئی ہے یا آپ کی؟ اورکیا آپ ان لوگوں کی وجہ سے ابھی تک ماضی میں قید ہیں اورزندگی میں آگے نہیں بڑھ نہیں رہے ؟
۔ آپ سوچیں کہ کیا میں ضرورت سے زیادہ حساسیت کا مظاہر ہ تو نہیں کر رہا ؟
۔اس تجزیہ کے بعد ان افراد کو معاف کرنا شروع کریں جن کی چھوٹی باتوں سے آپ دکھی ہو تے ہیں۔ اس سے آپ کے دل میں وسعت پیدا ہو جائے گی ۔
۔ جن واقعات اورافراد سے آپ دکھی ہوئے ہیں ان کے بارے میں اپنے مخلص دوستوں سے بات کریں ۔
۔ اگر ہو سکے تو ان افراد کو بتائیں کہ ان کے رویے یاعمل سے آپ کو کتنی تکلیف ہوئی ہے۔ کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ ان کا زویۂ نظرمختلف ہو۔
سب سے اہم یہ ہے کہ کسی دوسرے کو معاف کر دینے سے نہ صرف خدا خوش ہوتا ہے بلکہ انسان بھی ذہنی اور جسمانی بیماریوں سے دور رہتا ہے ۔
Written By Sofia Sohail
No comments:
Post a Comment