Showing posts with label Story. Show all posts
Showing posts with label Story. Show all posts

Sunday, 18 August 2013

Story,


ڈاکٹر تیزی سے ہسپتال میں داخل ہوا ، کپڑے تبدیل کیے اور سیدھا آپریشن تھیٹر کی طرف بڑھا ۔ اسے ایک بچے کے آپریشن کے لیے فوری اور ہنگامی طور پر بلایا گیا تھا ۔

ہسپتال میں موجود بچے کا باپ ڈاکٹر کو آتا دیکھ کر چلایا ، "اتنی دیر لگا دی؟ تمہیں پتا نہیں میرا بیٹا کتنی سخت اذیت میں ہے ، زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے ، تم لوگوں میں کوئ احساس ذمہ داری نہیں ہے ؟"۔
"مجھے افسوس ہے میں ہسپتال میں نہیں تھا ، جیسے ہی مجھے کال ملی میں جتنی جلدی آ سکتا تھا آیا ہوں " ، ڈاکٹر نے مسکرا کر جواب دیا ۔ "اب میں چاہوں گا کہ آپ سکون سے بیٹھیئے تاکہ میں اپنا کام شروع کر سکوں"

"میں اور سکون سے بیٹھوں ، اگر اس حالت میں تمہارا بیٹا ہوتا تو کیا تم سکون سے بیٹھتے ؟ اگر تمہارا اپنا بیٹا ابھی مر رہا ہو تو تم کیا کرو گے ؟" باپ غصے سے بولا ۔

ڈاکٹر پھر مسکرا کر کہا ، " ہماری مقدس کتاب کہتی ہے کہ ہم مٹی سے بنے ہیں اور ایک دن ہم سب کو مٹی میں مل جانا ہے ، اللہ بہت بڑا ہے اور غفور رحیم ہے ڈاکٹر کسی کو زندگی نہیں دیتا نہ کسی کی عمر بڑھا سکتا ہے ۔ اب آپ آرام سے بیٹھیں اور اپنے بیٹے کے لیے دعا کریں ۔ ہم آپ کے بیٹے کو بچانے کی پوری کوشش کریں گے "۔
"بس ان لوگوں کی نصیحتیں سنو چاہے تمہیں ان کی ضرورت ہو یا نہ ہو ۔ بچے کا باپ بڑبڑایا "۔
آپریشن میں کئ گھنٹے لگ گئے لیکن بالآخر جب ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر آیا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، " تمہارا بیٹا اب خطرے سے باہر ہے ، اگر کوئ سوال ہو تو نرس سے پوچھ لینا" ۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا ۔

"کتنا مغرور ہے یہ شخص ، کچھ لمحے کے لیے بھی نہیں رکا کہ میں اپنے بچے کی حالت کے بارے میں ہی کچھ پوچھ لیتا" ، بچے کے باپ نے ڈاکٹرکے جانے بعد نرس سے کہا ۔

نرس نے روتے ہوئے جواب دیا ، " اس کا بیٹا کل ایک ٹریفک کے حادثے کا شکار ہو گیا تھا ، جب ہم نے اسے آپ کے بیٹے کے لیے کال کی تھی تو وہ اس کی تدفین کر ریا تھا ۔ اور اب جبکہ اس نے آپ کے بیٹے کی جان بچالی ہے دوبارہ تدفین کو مکمل کرنے گیا ہے"۔

کبھی کسی پر بےجا تنقعید نہ کرو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ دوسرے کی زندگی کیسی ہے اور وہ کن کن مشکلات میں مبتلا ہے یا ہو سکتا ہے

(ھنتہ بٹ)

ڈراونی ماں



میری ماں کی ایک آنکھ تھی اور وہ میرے سکول کے کیفیٹیریا میں خانسامہ [cook] تھی جس کی وجہ سے میں شرمندگی محسوس کرتا تھا سو اُس سے نفرت کرتا تھا ۔ میں پانچویں جماعت میں تھا کہ وہ میری کلاس میں میری خیریت دریافت کرنے آئی ۔ میں بہت تلملایاکہ اُس کو مجھے اس طرح شرمندہ کرنے کی جُراءت کیسے ہوئی ۔ اُس واقعہ کے بعد میں اُس کی طرف لاپرواہی برتتا رہا اور اُسے حقارت کی نظروں سے دیکھتا رہا ۔

اگلے روز ایک ہم جماعت نے مجھ سے کہا “اوہ ۔ تمہاری ماں کی صرف ایک آنکھ ہے”۔ اُس وقت میرا جی چاہا کہ میں زمین کے نیچے دھنس جاؤں اور میں نے ماں سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا ۔ میں نے جا کر ماں سے کہا “میں تمہارھ وجہ سے سکول میں مذاق بنا ہوں ۔ تم میری جان کیوں نہیں چھوڑ دیتی ؟” لیکن اُس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کیا کہہ رہا تھا ۔ میں ماں کے ردِ عمل کا احساس کئے بغیر شہر چھوڑ کر چلا گیا ۔

میں محنت کے ساتھ پڑھتا رہا ۔ مجھے کسی غیر مُلک میں تعلیم حاصل وظیفہ کیلئے وظیفہ مل گیا ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے اسی ملک میں ملازمت اختیار کی اور شادی کر کے رہنے لگا ۔ ایک دن میری ماں ہمیں ملنے آ گئی ۔ اُسے میری شادی اور باپ بننے کا علم نہ تھا ۔ وہ دروازے کے باہر کھڑی رہی اعر میرے بچے اس کا مذاق اُڑاتے رہے ۔

میں ماں پر چیخا ” تم نے یہاں آ کر میرے بچوں کو درانے کی جُراءت کیسے کی ؟” بڑی آہستگی سے اُس نے کہا “معافی چاہتی ہوں ۔ میں غلط جگہ پر آ گئی ہوں”۔ اور وہ چلی گئی ۔

ایک دن مُجھے اپنے بچپن کے شہر سے ایک مجلس میں شمولیت کا دعوت نامہ ملا جو میرے سکول میں پڑھے بچوں کی پرانی یادوں کے سلسلہ میں تھا ۔ میں نے اپنی بیوی سے جھوٹ بولا کہ میں دفتر کے کام سے جا رہا ہوں ۔ سکول میں اس مجلس کے بعد میرا جی چاہا کہ میں اُس مکان کو دیکھوں جہاں میں پیدا ہوا اور اپنا بچپن گذارہ ۔ مجھے ہمارے پرانے ہمسایہ نے بتا یا کہ میری ماں مر چکی ہے جس کا مُجھے کوئی افسوس نہ ہوا ۔ ہمسائے نے مجھے ایک بند لفافے میں خط دیا کہ وہ ماں نے میرے لئے دیا تھا ۔ میں بادلِ نخواستہ لفافہ کھول کر خط پڑھنے لگا ۔ لکھا تھا
“میرے پیارے بیٹے ۔ ساری زندگی تُو میرے خیالوں میں بسا رہا ۔ مُجھے افسوس ہے کہ جب تم مُلک سے باہر رہائش اختیار کر چکے تھے تو میں نے تمہارے بچوں کو ڈرا کر تمہیں بیزار کیا ۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ تم اپنے سکول کی مجلس مین شمولیت کیلئے آؤ گے تو میرا دل باغ باغ ہو گیا ۔ مُشکل صرف یہ تھی کہ میں اپنی چارپائی سے اُٹھ نہ سکتی تھی کہ تمہیں جا کر دیکھوں ۔ پھر جب میں سوچتی ہوں کہ میں نے ہمیشہ تمہیں بیزار کیا تو میرا دل ٹُوٹ جاتا ہے ۔

کیا تم جانتے ہو کہ جب تم ابھی بہت چھوٹے تھے تو ایک حادثہ میں تمہاری ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی ۔ دوسری ماؤں کی طرح میں بھی اپنے جگر کے ٹکڑے کو ایک آنکھ کے ساتھ پلتا بڑھتا اور ساتھی بچوں کے طعنے سُنتا نہ دیکھ سکتی تھی ۔ سو میں نے اپنی ایک آنکھ تمہیں دے دی ۔ جب جراحی کامیاب ہو گئی تو میرا سر فخر سے بلند ہو گیا تھا کہ میرا بیٹا دونوں آنکھوں والا بن گیا اور وہ دنیا کو میری آنکھ سے دیکھے گا ۔

اتھاہ محبتوں کے ساتھ
تمہاری ماں”

سُورت 17 ۔ الْإِسْرَاء / بَنِيْ إِسْرَآءِيْل ۔ آیات 23 و 24
اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو
اور ان دونوں کے لئے نرم دلی سے عجز و انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور [اﷲ کے حضور] عرض کرتے رہو ۔ اے میرے رب ۔ ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے [رحمت و شفقت سے] پالا تھا

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی حدیث
والدین کو کوسنا سب سے بڑے گناہوں میں سے ایک ہے ۔ صحیح البخاری 8 ۔ 4


ہمارے قائد